Dr. Syed Taqi Abedi

DR. SYED TAQI ABEDI

taqiabedi@rogers.com

نظیرؔ عابدی کی منقبت نگاری

نظیرؔ عابدی کی منقبت نگاری

حمد و نعت، قصیدہ، مرثیہ اور منقبت موضوع کے لحاظ سے الگ الگ اصناف ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے مکمل الگ نہیں، بلکہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس مختصر سی تحریر میں ہم نے منقبت کو اس لئے بھی مرکزی خیال بنایا ہے کہ یہ نظم حدیثِ دل ہے جس میں قلبی واردات کی نغمگی صاف سنائی دیتی ہے۔ یہاں مدحت سرائی گلشن آلِ نبیؐ کی رنگینی اور خوشبو سے معطر ہے جس سے شاعر کا نفس نفس مہک رہا ہے اور یہی خوشبو اس کی زندگی کی شناخت اور اس کے مقصد حیات کا سرمایہ بھی ہے۔

یا رب میں جب تلک رہوں قیدِحیات میں

آلِ نبیؐ کا ذکر کروں بات بات میں

بس ایک ہی حسینؑ ہے کل کائنات میں

جو موت کو بھی ڈھال دے شگلِ حیات میں

فرشِ عزا سے خاکِ شفا منسلک رہے

پہلا سبق پڑھا تھا یہی دینیات میں

فرشِ عزا کی عظمت و حرمت کا اے نظیرؔ

واجب ہے ذکر کرتے رہو واجبات میں

نظیر عابدی کی منقبت کے ان شعروں میں احساس کی شدت ، جذبے کا خلوص اور اعتقاد کا جوش ہے۔ یہاں شاعر نے نہ صرف ساغر میں جذبہ کا دریا سمو دیا ہے بلکہ اس میں تلاطم بھی برپا کیا ہے جو عمدہ شاعری ہے اگرچہ مطلع اور مقطع کے اشعار میں شاعر اپنے ضمیر سے مخاطب ہے لیکن ابلاغ اور ترسیل میں یہ خوبی ہے کہ ہر پڑھنے والے کو یہ اُس کی قلبی آرزو معلوم ہوتی ہے یہ عمل نفسیاتی طور پر شاعر صرف اس وقت کر سکتا ہے جب خیال دل کے الاؤ میں پک کر صفحۂ قرطاس پر بکھرے اور اس کے حرف حرف سے سچائی کی آواز نکلے اسی ہنر کو قطرہ میں دجلہ دیکھنا اور دکھانا کہتے ہیں۔

اشعار سلیس و شگفتہ لفظوں سے رواں دواں ہیں۔ مصرعوں میں بہتے ہوئے پانی کی روانی ہے۔ قافیے ردیفوں میں اس طرح پیوست ہیں جیسے چارپائی کی چولیں۔ یہ کاریگری آمداور فطری شاعری کی پہچان ہے۔

کامیاب منقبت نگاری کے لیے شعری مہارت کے علاوہ علوم قرآنی ،احادیث معصومینؐ کے علاوہ اسلامی اور تاریخی ادب سے واقفیت ضروری ہے۔ نظیرؔ عابدی نے اشعارمیں تلمیحات ، آیات اور احادیث کے فقرات ، تاریخ اور تشریح اشارات سے مضمون میں بالیدگی پیدا کی ہے۔ مختلف نکات کا جوڑکر قصر خیال کو رشک معمار بنایا ہے۔ چھوٹے چھوٹے مصرعوں میں کائنات کی وسعتوں کو سمو کر سہل ممتنع کی فصل اگائی ہے۔

حسنؑ جو صلح نامہ لکھ رہے ہیں

یہی تو داستانِ کربلا ہے

امن و اماں کے ساتھ تھا پیغام جنگ بھی

اس واسطے بھی آگے حسینؑ و حسنؑ چلے

کھل گئے اسرار اور ثابت ہوا زیر کساء

عظمتیں جتنی بھی ہیں اُن سب کا محور فاطمہؑ

منتظر جس کی اقامت کے ہیں عیسٰیؑ مسیح

کون ہوسکتا ہے جز فخرِ سلماں کوئی

دربار کہ بازار ہو ہر ظلم کے آگے

اک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے زینبؑ

جس شہر میں بے مقنعہ و چادر رہی بی بی

اس شہر کی اب سید و سردار ہے زینبؑ

تاریخ جس کو کہتی ہے میدانِ کربلا

آزادئ خیال کا محور ہے آج بھی

نظیرؔ عابدی کی منقبت کا اسلوب بیانیہ ہے اس میں واقعہ نگاری، منظر نگاری، جذبات نگاری کے ساتھ ساتھ مکالمہ بندی کی جھلک موجود ہے۔مصرعوں میں غنائیت رچی بسی ہے، فارسی اور عربی تراکیب کے باوجود اشعار ذو دفھم اور مانوس لگتے ہیں۔ اگرچہدکن منقبتوں کو کسی خاص دبستان سے منسوب نہیں کیا جاسکتا لیکن پھر بھی دکن منقبتوں کا مزاج مصرعوں کے لہجوں سے ظاہر ہے جو صدیوں سے اس خطّہ زمین کی شناخت ہے۔

کرے سلونی کا دعویٰ یہ کس میں ہمت ہے

یہ حوصلہ تو فقط بو ترابؑ رکھتے ہیں

نادر علیؑ کے وار سے خیبر کو جیت کر

بتلا دیا نبیؐ نے کہ مشکل میں کیا کریں

میان مصطفیؐ و مرتضیٰ حائل نہ ہو کوئی

یہ وہ منزل ہے جل جائیں جہاں جبرئیل کے پر بھی

نظیرؔ عابدی نے منقبت میں سلام کے اشعار سجا کر اسے نیا رجحان دیا ہے ۔ مرثیہ نگار شاعروں نے مرثیے کے چہروں کو منقبتی اشعار سے تزئین دے کر فضائل و مصائب کا ایک حسین امتزاج قائم کیا چنانچہ اگر ان شعروں کو جدا کرکے پیش کریں تو نظم منقبت معلوم ہوتی ہے۔ نظیرؔ عابدی کی منقبت میں رثائی سپردگی ملاحظہ کیجئے۔

بقا بخشی ابوطالبؑ کے خون پاک نے دیں کو

گواہی میں مساجد بھی ہیں اور محراب و منبر بھی

صلح حسنؑ کے بعد یہ شبیرؑ نے کہا

اب وقت ہے قیام کا وقت اذاں نہیں

دھواں اٹھنے لگا جس دم لکھا قرطاس پر میں نے

جلی تھی مسندِ سجادؑ اور زینبؑ کی چادر بھی

جو مقصدِ شبیرؑ سے ٹکرائیں نہ ہرگز

اُس مجلس و ماتم کی طرف دار ہے زینبؑ

نظیرؔ عابدی کی منقبت پر فارسی شاعری کی چھاپ گہری ہے جو ان کے مطالعے کی دین ہے۔ فارسی ادب سے واقفیت نے ان اشعار کو معنیٰ آفرینی کا حُسن دیا ہے جو ہر منقبت نگار کے بس کی بات نہیں۔ یہاں صنعت ایجاز کے ساتھ معجز بیانی کی نمایش ہے۔ کم لفظوں میں معانی کے دفتر کھولنا قادر الکلامی مانی جاتی ہے۔

ذیل کے اشعار دیکھئے ہر فقرہ فضیلت کے باب کا عنوان ہے۔

بابِ شہرِ علم و حکمت، راکبِ دوش نبیؐ

کیوں نہ ہو پھر انبیاء کی فکر کا محور علیؑ

مصدرِ آہنگِ کُن، اور محرمِ اسرار حق

صاحبِ بانگِ سلونی، رونقِ منبر علیؑ

عقلِ اول، عقلِ کامل، عقلِ کل، عقل سلیم

قادر مطلق کے مظہر، نور کے پیکر علیؑ

ہ سچ ہے یہ منقبت میں وہی الفاظ، پاکیزہ خیال کی ترجمانی کر سکتے ہیں جو کوثر و تسنیم سے دُھلے ہوئے ہوں اور انہیں خاص آہنگ سے متصل کیا گیاہو، کیونکہ

ع:‘‘ یاں جنبشِ لب خارج از آہنگ خطا است ’’۔ منقبت میں اگرچہ نظیرؔ عابدی کا لہجہ پند و نصیحت یا واعظانہ نہیں بلکہ عاقلانہ اور عادلانہ ہے جو منقبت کی مینا کاری کے لیے ضروری ہے۔

الفاظ میں طہارت و عصمت کا ہو خیال

آلِ رسولؐ پاک کا جب تذکرہ کریں

صدقے میں اہلبیتؑ کے ہم سب کا اے نظیرؔ

ہو خاتمہ بخیر یہ مل کر دعا کریں

علیؑ والا ہوں کہہ دینا بہت آسان ہے لیکن

حقیقت میں حقیقت مثیم و بوذر بتائیں گے

اس تحریرکو ہم حمدیہ، نعتیہ، منقبتی اور مناجاتی بیان کے حُسن بیان پر تمام کرتے ہیں۔

تو ہی سبحان ہے تو ہی رحمان ہے

تیرا فرمانِ حق تیرا قرآن ہے

ذہن انساں ہدایت سے تھا بے خبر

تونے بھیجا ہدایت کو خیر البشرؐ

معرفت میں تری ہے حدیثِ نبیؐ

تجھ کو سمجھے تو بس مصطفیؐ و علیؑ

کر دعا اے نظیرؔ اپنے رب سے یہی

تو رہے زیر دامانِ مولا علیؑ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top