Dr. Syed Taqi Abedi

DR. SYED TAQI ABEDI

taqiabedi@rogers.com

شاعرِ انقلاب و جمالیات:جوش ملیح آبادی

 

(مختصر تعارف)

بیسویں صدی کا دوسرا بڑا اور عظیم شاعر شبیر حسن خاں جوشؔ ۵؍ سمبر ۱۸۹۸ء کو ملیح آباد میں پیدا ہوا۔ چونکہ جوشؔ کی تاریخ ولادت کی کوئی مستند دستاویز موجود نہیں، اس لیے بعض مقامات پر ان کی تاریخ پیدائش ۱۸۹۶ء لکّھی گئی ہے۔ چنانچہ بقول جوشؔ ’’دو برس اور بوڑھا ہوگیا۔ ہوجانے دیجیے (جوتی کی نوک سے)۔ ‘‘ جوشؔ نے اس دارِ فانی میں ۸۴ یا ۸۷ برس گزارے اور ۲۲؍ فروری ۱۹۸۲ء کو ابدی نیند کی آغوش میں سوگئے۔ چونکہ زندگی ایک جبرِ مسلسل ہے اس لیے بڑھاپے میں جوان دل کے ساتھ زندہ رہے۔ اگرچہ کہ وہ چاہتے تھے:

معشوق کہے آپ ہمارے ہیں بزرگ

وہ دن ہمیں یا رب نہ دکھانا ہرگز

وہ معشوق کے بزرگ تو نہ بن سکے لیکن اردو ادب کے بزرگ ترین شاعروں شریک ہوگئے اور دنیائے ادب کے تمام پروانے کو اپنا کلمہ پڑھا گئے۔

کیوں اہلِ نظر پڑھیں نہ کلمہ میرا

میں شاعر آخرالزماں ہوں اے جوشؔ

ممتاز شاعر ’’نصیر ترابی نے اس آخری مصرعہ سے ان کی سال رحلت کی تاریخ نکالی ہے۔

جوشؔ افغانی النسل پٹھان تھے۔ جوشؔ کے پردادا تہوّر جنگ حسام الدولہ نواب فقیر محمد خان بہادر گویاؔ شاعر اور ملیح آباد کے رئیس تھے۔ آپ یار بیگ خان کے پوتے تھے جو درّہ خیبر کے سرداروں میں سے تھے۔ جوشؔ کے دادا محمد احمد خان بہادر تعلقہ دار صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ بقول جوشؔ’’ان کی پچیس تیس بیویاں، چار نکاحی اور باقی سب لونڈیاں اور باندیاں تھیں۔ وہ ۱۱۲ بچوں کے باپ تھے۔ ان کے بچوں کے غالباً ۸۵ نام میرے پاس لکھے ہیں۔‘‘ جوشؔ کے باپ بشیر احمد خاں شاعر اور رئیس تھے۔ ان کو فارسی زبان اور تاریخ اسلام پر عبور تھا۔ وہ ہمیشہ لکھنؤ کے اساتذہ شعرا کے ساتھ رہتے تھے۔ بقول جوشؔ وہ میرؔ اور انیسؔ کے شیدائی تھے۔ جوشؔ کے دو بھائی شفیع احمد خاں، رئیس احمد خاں اور چار بہنیں افسر جہاں، انیس جہاں ، حشمت جہاں اور شوکت جہاں تھیں۔ جوشؔ کو انیس جہاں سے بہت پیار تھا۔ جوشؔ کی ایک بیٹی جن کانام سعیدہ خاتون تھا وہ ۱۹۱۷ء میں ملیح آباد اور بیٹا سجاد حیدر ۱۹۱۹ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔

جوشؔ کی تعلیم لکھنؤ، علی گڑھ اور آگرہ میں ہوئی۔ ریڈ کرسچن اسکول میں اپنی طالب علمی کا ذکر کرتے ہوئے جوشؔ کہتے ہیں۔ ’’کھجوے کے قیام سے مجھے بہت فائدہ پہنچا۔ ایک طرف تو نارنگی کے باغ میں دوڑنے کی وجہ سے میری صحت اچھی ہوگئی، دوسری طرف سید ناصر حسین صاحب قبلہ اور اسکول آتے جاتے پیارے صاحب رشیدؔ کی صحبت سے نہایت علمی اور ادبی فائدہ پہنچا۔ اور تیسری طرف مرزا ہادی رسواؔ ’’صاحب امرائو جان‘‘ سے میں نے با قاعدہ فارسی اور عربی پڑھنا شروع کردی۔ میں کبیر داسؔ اور ٹیگورؔ کی شاعری کا دلدادہ اور حافظؔشیراز کا پرستار تھا۔‘‘

جوشؔ نے تقریباً ۷۵ سال مشقِ سخن جاری رکھی۔ ۹ برس کی عمر میں شاعری شروع کی اور جوشؔ کے قول کے مطابق ’’میں شاعری کے پیچھے نہیں دوڑا بلکہ شاعری نے خود میرا تعاقب کیا اور نوبرس کی عمر ہی میں مجھ کو پکڑ لیا۔ شاعری میری حاکم ہے اور میں محکوم۔ وہ جابر ہے اور میں مجبور، وہ قاہر ہے اور میں مقہور، وہ آمد ہے اور میں مامور۔‘‘ شفیق باپ نے شاعری ترک کر دینے کی خواہش اور تاکید کی لیکن جوشؔ نہ مانے۔ وہ روز بروز شاعری کے رنگ میں غلطاں ہوتے گئے اور ہمیشہ اپنے ہم عمر لڑکوں کی طرح کھیل کود ، پتنگ اور کبوتر بازی کے بجائے ایک گوشے میں بیٹھ کر شعر گوئی میں مصروف رہتے تھے۔ بچپن ہی سے جوشؔ کا رنگ منفرد اور ان کی فکر تخّیل انقلابی تھی۔ ان کے لڑکپن میں لکھی گئی ایک نظم ’’ترانہ بیگانگی‘‘ جو مسدّس کی شکل میں ہے جس کو انہوں نے اپنے سب سے پہلے مجموعہ روحِ ادب میں شائع کیا تھا کہتے ہیں۔

مجھ کو ایذا دے کسی ہستی میں یہ قوت نہیں

دوست یا دشمن کوئی ہو اس قدر طاقت نہیں

جز خدا اب آدمی کی جوشؔ پہ قدرت نہیں

کیوں کہ مجھ کو اہلِ دنیا سے کوئی حاجت نہیں

دوسرے عالم میں ہوں دنیا سے مری جنگ ہے

تاج شاہی سے قدم بھی مس کروں تو ننگ ہے

جوش کہتے ہیں کہ ’’میری زندگی کے چار بنیادی میلانات ہیں۔ شعر گوئی، عشق بازی، علم طلبی اور انسان دوستی۔ ان سب کو سلسلہ وار دیکھ لیجیے تاکہ آپ سمجھ لیں میں کیا ہوں۔‘‘

علّامہ اقبالؔ کی طرح جوشؔ نے بھی اپنے آپ کو ’’مجموعہ اضداد‘‘ کہا ہے۔ جوشؔ ان خوش بخت شاعروں میں شامل ہیں جن کی عمر زندگی میں ان کے کلام کے تمام مجموعہ منظرِ عام پر آچکے تھے جو حسبِ ذیل ہیں۔ ’’روح ادب‘‘ شعری و نثری مجموعہ (۱۹۲۰ء)، ’’شاعر کی راتیں‘‘ (۱۹۳۳ء) ، یادوں کی برات (۱۹۳۶ء) ، شعلہ و شبنم (۱۹۳۶ء) ، فکر و نشاط (۱۹۳۷ء)، جنون و حکمت (۱۹۳۷ء)، حرف و حکایت (۱۹۳۸ء)، آیات و نغمات (۱۹۴۱ء)، عرش و فرش (۱۹۴۴ء)، رامش و رنگ (۱۹۴۵ء) ، سنبل و سلاسل (۱۹۴۷ء) سیف و سبو (۱۹۴۷ء)، سرود و خروش (۱۹۵۳ء)سموم و صبا (۱۹۵۵ء) طلوع فکر (۱۹۵۷ء) الہام و افکار (۱۹۶۶ء) اور نجوم و جواہر (۱۹۶۷ء)۔ روحِ ادب جوشؔ کا پہلا مجموعۂ کلام ہے جو ۱۹۲۰ء میں شائع ہوا۔ یہ مجموعہ اس دور کی یاد ہے جسے جوشؔ نے یادوں کی برات میں ’’دور تصوّف و تشفّف‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ اسی مجموعہ کے دیباچہ میں اکبر الٰہ آبادی کہتے ہیں۔ ’’حقائق عالم اور معرفت باری تعالیٰ میں ان کے اشعار نہایت بلیغ اور دلاویز ہوتے ہیں اور یہ ان کا فطرتی جوہر ہے۔

فنا ہو جا چھلک اٹھے گا سینہ شمع عرفاں سے

ابھی تو دل کے آئینہ پر غافل داغ ہستی ہے

عجیب شعر ہے۔ باسی سوسائٹی میں رہ کر ایسے خیالات عالی حیرت افزا ہیں۔ کاش کسی وقت میں آپ اور اقبالؔ یکجا ہوتے۔‘‘

اسی زمانے میں جوشؔ کے مقالاتِ زرّیں، ’’اوراقِ سحر‘‘ اور ’’جذبات فطرت‘‘ کے نام سے نثری اور شعری تخلیقات پر مشتمل مختصر کتابچے منظرِ عام پر آئے ۔ مقالات زرّیں جوشؔ کے حکیمانہ اقوال اور نادر کلمات کا ایسا مجموعہ ہے جس میں اخلاق، آداب معارف ، اسرارِ حقائق، فلسفہ، عظمت لطائف ادبیات اور حکمت و تصوّف کے ۲۶۴جواہر ریزے (اقوال) بکھرے ہوئے ہیں۔

’’روح ادب‘‘ میں دنیا کے نام سے سات بندوں پر مشتمل جو نظم ہے اس میں دنیا داری سے بیزاری اور نفرت کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس نظم کا آخری بند ملاحظہ ہو جو مسدّس کی شکل میں ہے۔

جا گورِ غریباں پہ نظر ڈال بہ عبرت

کھل جائے گی تجھ پہ تری دنیا کی حقیقت

عبرت کے لیے ڈھونڈ کسی شاہ کی تربت

اور پوچھ کدھر ہے وہ تری شانِ حکومت

کل تجھ میں بھرا تھا جو غرور آج کہاں ہے

اے کاسۂ سر بول ترا تاج کہاں ہے

جوشؔ کے معرفتِ الٰہی پر اشعار دیکھئے۔

تجھے اس سے زیادہ کوئی سمجھا ہی نہیں سکتا

خدا وہ ہے جو حدِّ عقل میں آہی نہیں سکتا

رموزِ معرفت کو معنی بے لفظ کہتے ہیں

یہ وہ باتیں ہی جن کو ناطقۂ پا ہی نہیں سکتا

***

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top