Dr. Syed Taqi Abedi

DR. SYED TAQI ABEDI

taqiabedi@rogers.com

میر انیسؔ کے سلاموں میں اخلاقی قدریں

میر ببر علی انیسؔ (۱۸۷۴۔۱۸۰۲ء) مرثیے کے آسمان کے آفتاب ہیں جن کے کلام میں جگہ جگہ انسانی قدروں کی جلوہ گری ہے۔ آج ہمارے درمیان ان کے اسّی (۸۰) ہزار سے زیادہ اشعار مطبوعہ مرثیوں، سلاموں، رباعیوں اور نوحوں کی شکل میں موجود ہیں۔ ہم اس تحریر میں یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ اردو کا شاید ہی کوئی دوسرا شاعر ہو جس نے اس کثرت سے اخلاقی ، تربیتی ، تہذیبی، سماجی، ثقافتی، مذہبی اور علمی انسانی قدروں کا ذکر کیا ہو۔ اگرچہ اس مختصر تحریر میں تمام تر اقدار کا احاطہ ممکن نہیں پھر بھی ہم انیسؔ کے مختلف سلاموں، رباعیوں اور صرف چند مرثیوں کے شعروں سے گلدستہ بنائیں گے جس میں انسانی قدروں کے پھولوں کی رنگ برنگی اور خوشبو شامل رہے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انیس مرثیے کے عظیم شاعر ہیں اور مرثیہ کا تعلق جذبۂ غم کے اظہار سے ہے اور ناٹیہ شاستر کے بھرت منی کے مطابق انسانی جذبات یا رسوں میں سب سے شدید جذبہ یار س غم ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ مرثیے میں مرنے والے کی تعریف اس کے اوصاف اور کارناموں کا ذکر بھی شامل ہوتا ہے جس کی بدولت مرثیہ موجودہ دور کی ضرورت ہوتی جا رہی ہیں۔ ہمارے گلوبل ولیج کے افرادمعاشرے بد عہدی، بد کرداری، بے وفائی، جارحیت اور بے عملی کے شکنجوں میں پھنسے ہوئے ہیں چنانچہ مرثیے کے ضابطہ اخلاقی کی ضرورت ہے، اس کی خوش عہدی، خوش کرداری، عزم و استقلال اور خوش عملی کی ضرورت ہے جو اس کے عظیم پاکیزہ کرداروں میں پائی جاتی ہے۔ یہ برگزیدہ افراد جو رسولِ اکرم کے خاندان کے چشم و چراغ تھے جن کے ساتھ فدا کار کربلا کے شہدا انسانیت، شرافت اور آدمیت کے مجسمے بن کر کربلا کو انسانیت کا مینارہ نور بنا رہے تھے یہ انیسؔ کے مرثیے کے کریکٹر تھے جن کے لیے خود انیسؔ نے اپنے عجز کا اظہار بھی کیا ہے:

میں کیا ہوں مری طبع ہے کیا اے شہ شاہاں

عاجز ہیں فرزدق و دعبل وائل و سحباں

کتاب اخلاق کا کوئی بھی درس ہو ہمیں کلام انیسؔ میں مل سکتا ہے اس میں صداقت، شجاعت، محبت، شفقت، امانت، شجاعت، علم و حلم، تحمل، صبر، اتحاد و اتفاق، عزم ادب احترام، رزم بزم کے آداب سب ہمیں جگہ جگہ پرستاروں کی طرح چمکتے دمکتے نظر آتے ہیں۔

ہم یہاں پہلے میر انیسؔ کے سلاموں سے اشعار پیش کریں گے۔ سلام ایک مستقل صنف سخن ہے جسے مرثیے کی توسیع میں شامل کرسکتے ہیں۔ عربی اور فارسی ادب میں سلام موجود نہیں یہ مکمل بر صغیر کی پیداوار ہے جس کی ابتدا دکن سے ہوئی۔ اگر دکنی قدیم شاعر غواصی کے سلام کے تصنیف سال ۱۰۳۵ہجری کو لیا جائے تو سلام کی عمر چار سو سال سے زیادہ ہے۔ قدیم نمونوں میں نعتیہ سلام، منقبتی سلام اور رثائی سلام ملتے ہیں جو ہر ہیئت میں نظر آتے ہیں لیکن سلام کی آج کل موجودہ شکل غزل کے مماثل ہے یعنی اس کے اشعار میں باہم تسلسل نہیں ہوتا اور عموماً ہر شعر مستقل اور جداگانہ ہوتا ہے۔ سلام کے ارتقا کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں آہستہ آہستہ اخلاقی قدروں کے مضامین نظم کیے گئے اور پھر سماجی مسائل جو حریت آزادی، عزت نفسی، خود داری، قناعت، سخاوت وغیرہ داخل کیے گئے اس طرح سلام ثوا ب کے حصول کے ساتھ ساتھ زمانے کے نئے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے لکھا گیا۔ یہی ترقی ہمیں مرثیوں میں بھی دکھائی دینے لگی اور مرثیے اور سلام صرف رونے رُلانے کے لیے نہیں بلکہ عزتِ نفسی سے زندگی گزارنے کے لیے معاشرے کا حصہ بن گئے ۔ میر انیسؔ کے تقریباً سو سلام موجود ہیں اور ان سلاموں کے کئی اشعار زبان زدہ خواص و عام ہیں۔ سلاموں کے اشعار سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر انیسؔ مرثیوں اور رباعیوں کو نہ کہتے اور صرف سلام ہی لکھتے تو بھی وہ اقلیم سخن کے بادشاہ رہتے ۔ اسی لیے تو کہتے ہیں:

کسی نے تری طرح سے اے انیسؔ

عروس سخن کو سنوارا نہیں

—————

نظم ہے یا در شہوار کی لڑیاں ہیں انیسؔ

جوہری بھی اس طرح موتی پرو سکتا نہیں

یہ دوات و خامہ ہے ملک فصاحت کا نشاں

کون کہتا ہے کہ ہم طبل و علم رکھتے نہیں

—————

مری قدر کر اے زمین سخن

تجھے بات میں آسماں کردیا

سبک ہو رہی تھی ترازوئے شعر

مگر پلّہ ہم نے گراں کردیا

عزتِ نفس اور خودی کو بلند کرنے کا راز اللہ پر توکل سے حاصل ہوتا ہے۔ اسی سے قناعت، استغنا اور فقیری و قلندری حاصل ہوتی ہے۔ انیسؔ کے کلام اور بخصوص ان کے بعض سلام کے شعر اس عالی انسانی قدر میں بے مثال ہیں:

اہل دولت سے نہیں مطلب انیسؔ

یاں توکل ہے سدا اللہ پر

—————

اک در پہ بیٹھ کر ہے توکل کریم پر

اللہ کے فقیر کو پھیرا نہ چاہیے

جز  پنجتنؑ کسی سے تولا  نہ  چاہیے

غیر از خدا کسی پہ بھروسہ نہ چاہیے

کریم جو تجھے دینا ہے بے طلب دے دے

فقیر ہوں پہ نہیں عادتِ سوال مجھے

—————

کسی کے سامنے کیوں ہاتھ جاکے پھیلائوں

مرا کریم تو دیتا ہے بے سوال مجھے

—————

کریم مجھ کو عطا کر وہ فقر دنیا میں

کہ جس کو فخر رسالت مآبؐ سمجھے ہیں

—————

اک کشکول تو کل ایک نقد جاں ہے پاس

ہیں غنی دل کے کوئی دام و درم رکھتے نہیں

تاریخ میں وہ واقعات بھی لکھے ہوئے ہیں جہاں ایک فقیر کے سامنے بادشاہ محتاج نظر آتا ہے۔ یہ طاقت اُسے قناعت، استغنا، خود داری سے حاصل ہوتی ہے اور یہی قدریں انسان کو احسن التقویم کا نمونہ بناتی ہیں۔ میر انیسؔ کے سلاموں کے چند اشعار میں فقر کی فخر بخشی اور قلندری دیکھئے:

فقر کی دولت کو کیا خالق نے بخشا ہے وقار

ہاتھ پھیلاتا ہے سلطاں بھی گدا کے سامنے

—————

جز خدا جھکتے نہیں ہم بادشاہ کے سامنے

ہاتھ پھیلائے تونگر کیا گدا کے سامنے

—————

بخشی ہے خدا نے ہم کو وہ دولت فقر

برسوں ڈھونڈے تو بادشاہ کو نہ ملے

فقیروں کی مجلس ہے سب سے جدا

امیروں کا یاں تک گزارا نہیں

—————

صورت آئینہ استغنا کے جوہر کھُل گئے

ایک درہم پر ہوا گر بند سو در کھُل گئے

—————

اللہ صرف رزاق ہے باقی تمام وسیلے اور وسائل ہیں۔ ہاتھ نہ پھیلانا، اپنی مٹھی بند رکھنا ہمارے قدیم صوفی شعرا کے پاس موجود ہے۔ انیس ؔ جانتے ہیں کہ فرشتوں نے انسان کی بڑائی کو سجدہ کیا ہے۔ اسی لیے فرماتے ہیں:

اے زمیں مجھ کو حقارت سے نہ دیکھ

آسماں کا طرّۂ دستار ہوں

خود داری انسان کی خودی کو بلند کرتی ہے:

بھگو کے کھاتے ہیں پانی میں نان خشک کو وہ

اس آبرو کو جو موتی کی آب سمجھتے ہیں

—————

کیا قبول قناعت سے بحر عالم میں

صدف کی طرح میسر جو آب و دانہ ہوا

—————

گر ضامن روزی ہے خدا وند کریم

پھر کس لیے تو رزق کا غم کھاتا ہے

—————

کنج عزلت میں مثال آسیا ہوں گوشہ گیر

رزق پہنچاتا ہے گھر بیٹھے خدا میرے لیے

آج کے اس پُر آشوب اخلاقی ماحول میں جہاں خود شناسائی کے فقدان سے خود ستائی کا بول بالا ہے۔ غرور اور سر کشی سے گردنیں تنی ہوئی ہیں۔ خود پرستی، نسل پرستی، قوم پرستی نے جھوٹی آن بان شان کے دربار اور دُربار سجا رکھے ہیں۔ چنانچہ اصلی انسانی جوہر جو عجز و انکسار، بردباری اور خاکساری کی اکسیر سے خاکی بشر کو نورانی تابندگی دیتا تھا نظر نہیں آتا۔ انیسؔ نے اپنے سلاموں کے شعروں میں اس نکتہ کی طرف خوبصورت اشارہ کیا ہے:

انیسؔ عمر بسر کردو خاکساری میں

کہیں نہ یہ کہ غلام ابو تراب نہ تھا

—————

گردوں کو اگر ہے سرکشی کا غرہ

مجھ کو بھی غرور خاکساری کا ہے

—————

دی ہے جو خدا نے سر فرازی مجھ کو

ثمرہ یہ نہال خاکساری کا

—————

جنہیں ملا انہیں افتادگی سے اوج ملا

انہوں نے کھائی ہے ٹھوکر جو سر اٹھا کے چلے

—————

خاکساری نے دکھائیں رفعتوں پہ رفعتیں

اس زمیں سے واہ کیا کیا آسماں پیدا ہوئے

حقیقت یہ ہے کہ جب انسان عجز و انکساری، برد باری، فروثتی، خاکساری اور خود شناسی کی منزل پر قیام کرتا ہے تو اُسے انسان کے مقام کا احساس ہونے لگتا ہے اور پھر وہ انسان کا احترام کرکے اس کے حقوق کا پاسبان بن جاتا ہے اور اس پر انسان کی فضیلت کے دروازے کھُل جاتے ہیں اور وہ انسان کامل فرشتہ صفت بن جاتا ہے۔ میر انیسؔ کے کلام میں کامل انسان کی شناخت کے خوبصورت نمونے اور اس کو حل کرنے کے عملی تجربے بکھرے پڑے ہیں۔ اس لیے وہ اشعار کو اپنی ذات سے منسلک کرکے پیش کرتے ہیں۔ ہم یہاں صرف ان کے سلاموں سے کچھ مثالیں دے رہے ہیں۔

خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم

انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

—————

کبھی برا نہیں جانا کسی کو اپنے سوا

ہر ایک ذرّے کو ہم آفتاب سمجھتے ہیں

—————

کسی کا دل نہ کیا ہم نے پائمال کبھی

چلے جو راہ تو چیونٹی کو بھی بچا کے چلے

—————

راحت خدا نے دی تو کیا تو نے شکر کب

ایذا بھی چار دن ہو تو شکوہ نہ چاہیے

—————

خدا کی راہ میں ایذا سے جن کو راحت ہے

زمین گرم کو وہ فرش خواب سمجھے ہیں

—————

گر فلک مجھ سے ہے بر گشتہ تو کیا غم ہے انیسؔ

پنجتنؑ  حامی  ہیں  اللہ  ہے  سر  پر  میرا

—————

ہر اک کے ساتھ ہے روشن دلو طلوع و غروب

سحر کو چاند نہ تھا شب کو آفتاب نہ تھا

انیسؔ دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جائو

چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

—————

کسی کی ایک طرح سے بسر ہوئی نہ انیسؔ

عروج مہر بھی دیکھا تو دوپہر دیکھا

—————

وہ ہے آدمی جس سے ہو کارِ خیر

بشر وہ جو دنیا میں بے شرر ہے

انیسؔ اپنے کلام اور بخصوص سلام میں اخلاق سازی میں اپنی ذات کو مثال دے کر شعر کہتے ہیں۔ وقت کی قدر کرنا، حریص و طمع سے بچنا، سیہ کاری، دنیا داری، کاہلی ، عیش و عشرت اور آسایش و نمایش سے دوری وغیرہ کو بہت ہی خوبصورت طریقے سے پُر تاثیر اور قابل تقلید بناتے ہیں۔ انیسؔ سچ کہتے ہیں:

صدف طبع سے گوہر نو اگلتا ہے انیسؔ

قدر داں ہوتا تو منہ موتیوں سے بھردیتا

—————

سوئوگے کب تک بس اب اٹھو انیسؔ

دن بہت غفلت میں تھوڑا رہ گیا

نمود و بود بشر کیا محیط عالم میں

ہوا کا جب کوئی جھونکا چلا حباب نہ تھا

—————

عمارتیں تو بنائیں خراب ہونے کو

اب اپنی قبر بھی او خانماں خراب بنا

گریباں مرا چھوڑ اے حرص دنیا

مرے ہاتھ میں دامن پنجتنؑ ہے

—————

جو آبرو کا ہے طالب تو کر عرق ریزی

یہ کشمکش ہوئی تب پھول سے گلاب بنا

—————

احتیاط جسم کیا انجام کو سوچو انیسؔ

خاک ہونے کو یہ مشت استخواں پیدا ہوئے

دنیا کی بے ثباتی اور لوگوں کی دنیا داری ، دنیا پروری پر امیر انیسؔ نے مضامین کے دفاتر سجائے ہیں۔ امام حسینؑ نے دین اور عزت نفس کی خاطر دنیا کو ٹھکرا دیا۔ اسی لیے وہ ان زنجیروں کو توڑنے والے سورما بن گئے جن سے حریت آزادی ، اخوت، محبت، شفقت، سخاوت، صداقت کی روشنیاں دنیا کے ظلمات میں روشن راستے دکھلانے لگیں۔

قیام کس کا ہوا اس سرائے فانی میں

ہمیشہ ایک کے بعد ایک کا سفر دیکھا

—————

امام کہتے تھے کیا اعتبار دنیا کا

اگر خیال سے دیکھے کوئی تو خواب یہ ہے

—————

ساتھ جاتا نہیں کچھ جز عمل خیر انیسؔ

اس پہ انساں کو ہے خواہش دنیا کیا کیا

—————

عبرت کی ہے یہ جا کہ گیا جانب عدم

دنیا سے خالی ہاتھ سکندر لیے ہوئے

میر انیسؔ کا ایک خاص موضوع قبر ہے۔ دنیا کا ہر شخص موت پر یقین رکھتا ہے لیکن اس پر زیادہ غور و خوض نہیں کرتا اس لیے وہ فانی دنیا کے فانی کاموں میں مصروف ہو جاتا ہے۔ میرانیسؔ نے عجیب اور نادر مضامین سے انسان کو اس موضوع پر سوچنے کی تلقین کی ہے۔اگرچہ درجنوں آبدار اشعار اس مضمون پر انیسؔ کے پاس ہیں لیکن ہم صرف سلام کے اشعار سے تحریر مزین کر رہے ہیں:

قریب قبر ہم آئے کہاں کہاں پھر کر

تمام عمر ہوئی جب تو اپنا گھر دیکھا

—————

عمارتیں تو بنائیں خراب ہونے کو

اب اپنی قبر بھی اے خانماں خراب بنا

—————

ہمیشہ فرش مشجر پہ جو کہ بیٹھتے تھے

نہ ان کی قبر پہ بھی سایۂ شجر دیکھا

—————

قبر میں نہ تخت اس کا ہے نہ اس کا بوریا

ڈھیر مٹی کا برابر ہے گدا و شاہ پر

—————

قبر میں رکھ کر نہ ٹھہرا کوئی دوست

میں نئے گھر میں اکیلا رہ گیا

—————

نوبت جمشید و دارا و سکندر اب کہاں

خاک تک چھانی نہ قبروں کے نشاں پیدا ہوئے

—————

خاک سے ہے خاک کو الفت تڑپتا ہوں انیسؔ

کربلا کے واسطے میں کربلا میرے لیے

—————

مجرئی تب دل غم دیدہ کا ارماں نکلے

روضۂ شاہ پہ جب تن سے مری جاں نکلے

انسانی قدروں کا عروج اور ان کی معراج عرفانی اور تصوفی مضامین میں نظر آتی ہیں۔ فلسفۂ شہادت امام حسینؑ فلسفہ عشق الٰہی کا محور ہے۔ امام حسینؑ عاشور کے دن عشق کے امتحان میں سرخ رو نظر آتے ہیں۔ میر انیسؔ کے مرثیوں اور رباعیوں میں ایسے مضامین بھرے پڑے ہیں لیکن ہم یہاں مضمون کے التزام کے ساتھ صرف چند نمونے کے اشعار جو سلاموں میں ہیں پیش کرتے ہیں:

یہ جلوہ معشوق سے ہوں محو کہ واللہ

جو ظلم و ستم دیکھا وہ گویا نہیں دیکھا

—————

شاہ کہتے تھے کٹے حلق مگر ہاتھوں سے

دامن صبر نہ زیر دم خنجر چھُوٹے

—————

پوچھا زینبؑ نے ہوئی فتح تو سرورؑ نے کہا

سر کٹادوں تو مہم عشق کی سر ہو جائے

—————

بیٹھوں تہہِ شمشیر یہ مرضیٔ خدا ہے

اے عاشق صادق دم تسلیم و رضا ہے

یقینا فنا فی اللہ میں بقا ہے ۔ اسی لیے تو میر انیسؔ نے کہا تھا:

شمع کشتہ ہوں فنا میں ہے بقا میرے لیے

خود نوید زندگی لائی قضا میرے لیے

امام حسینؑ نے ہر موقع پر شکر ادا کیا جو انسانیت کی عالی ترین منزل ہے اور اس جذبے سے انسان انسان بنتا ہے۔ ہم اس تحریر کو سلام کے دو شعروں پر تمام کرتے ہیں۔ یہاں میر انیسؔ کے نئے مضامین میں ندرت بیانی، قادر الکلامی کی معجز بیانی دیکھئے کہ مصرعوں میںنغمگی کے علاوہ سلاست اور روانی بھی رواں دواں ہے:

شکر ہی شکر نکلتا تھا لہو کے بدلے

دہن زخم بدن دیدۂ خوں بار نہ تھے

آب خنجر سے گلا جب شاہ کا تر ہوگیا

پانی پانی اے سلامی غم سے کوثر ہوگیا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top